Recent Posts

بیٹی اللہ کی رحمت

0 comments



                                                          بیٹی اللہ کی رحمت

" ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا 
ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے شیطان نے اس کو بہکایا چناںچہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور۔
رات کو سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا اسے معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔
اللھم ارزقنا السابعۃ
اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔
اس لئے جن لوگوں کا قضا وقدر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ایمان کی کمزوری کے سبب جن بد عقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں یہ سرا سر غلط ہے اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ایسی صورت میں ہر مسلمان پر واجب ہے اللہ تعالی کی قضا وقدر پر راضی ہو اللہ تعالی نے سورہ شوری میں ارشاد فرمایا ہے:-
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)
(ترجمہ)
آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے......!!

Read More »
0 comments




امام جعفر صادق علیہ السلام اور ایک ہندی طبیب :-


امام جعفر صادق (ع) ایک بار منصور کے دربار میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک طبیب ہندی ایک کتاب ''طب ہندی'' منصور کو پڑھ کر سنا رہا تھا، آپ بھی بیٹھ کر خاموشی سے سُننے لگے۔ جب وہ فارغ ہوا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور منصور سے پوچھا، یہ کون ہیں۔ منصور نے جواب میں کہا ، یہ عالمِ آلِ محمد ہیں۔ طبیب ہندی آپ سے مخاطب ہوا اور بولا، آپ بھی اس کتاب سے کچھ فائدہ اُٹ
ھانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، نہیں۔ اُس نے کہا، کیوں؟ آپ نے فرمایا جو کچھ میرے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس نے کہا، آپ کے پاس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہم گرمی کا سردی اور سردی کا گرمی سے۔ رطوبت کا خشکی سے اور خشکی کا رطوبت سے علاج کرتے ہیں۔ اور جو کچھ رسول خدا نے فرمایا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور انجام کار خدا پر چھوڑتے ہیں۔ طبیب ہندی نے کہا وہ کیا ہے؟
امام:۔ فرمودئہ رسول یہ ہے کہ شِکم پر بیماری کا گہرا اثر ہوتا ہے اور پرہیز ہر بیماری کا علاج ہے جسم جس چیز کا عادی ہو گیا ہو اُس سے اُس کو محروم نہ کرو۔
طبیب:- ہندی:۔ مگر یہ چیز طِب کے خلاف ہے
امام:۔ شاید تمہارا یہ خیال ہے کہ میں نے یہ علم کتاب سے حاصل کیا ہے طبیب ہندی:۔ اسکے علاوہ بھی کیا کوئی صورت ہے
امام:۔ میں نے یہ علم سوائے خدا کے کسی سے حاصل نہیں کیا۔ لہذا بتلاوٴ ہم دونوں میں کس کا علم بلند و برتر ہے۔
طبیب:- کیا کہاجائے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید میں آپ سے زیادہ عالم ہوں۔ امام:۔ اچھا میں تم سے کچھ سوال کرسکتا ہوں؟
طبیب:۔ ضرور پوچھئے۔
امام:۔ یہ بتاوٴ کہ آدمی کی کھوپڑی میں کثیر جوڑ کیوں ہیں،سپاٹ کیوں نہیں طبیب:۔ کچھ غور و خوض کے بعد ، میں نہیں جانتا
امام:۔ اچھا پیشانی پر سر کی طرح بال کیوں نہیں ہیں
طبیب:۔ میں نہیں جانتا
امام:۔ پیشانی پر خطوط کیوں ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ آنکھوں پر اَبرو کیوں قرار دیئے گئے ہیں۔
طبیب:۔ میں نہیں جانتا
امام:۔ آنکھیں بادام کی شکل کی کیوں بنائی ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ ناک دونوں آنکھوں کے درمیان کیوں ہے
طبیب:۔ مجھے معلوم نہیں
امام:۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف کیوں ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ ہونٹ، منھ کے سامنے کیوں بنائے ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ آگے کے دانت باریک و تیز اور داڑھیں چپٹی کیوں ہیں
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ مرد کے داڑھی کیوں ہے
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ ہتھیلی اور تلوے میں بال کیوں نہیں ہیں
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ ناخُن اور بال بے جان کیوں ہیں۔
طبیب :۔ معلوم نہیں
امام:۔ دِل صنوبری شکل کا کیوں ہے
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ پھیپھڑے کے دو حصے کیوں ہیں اور متحرک کیوں ہیں۔
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ جگر گول کیوں ہے
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف کیوں ہے۔
طبیب:۔ معلوم نہیں
امام:۔ میں خدائے دانا و برتر کے فضل سے ان تمام باتوں سے واقف ہوں۔
طبیب:۔ فرمایئے میں بھی مستفید ہوں
امام: غورسے سُن
۱۔ آدمی کی کھوپڑی میں مختلف جوڑ اس لئے رکھے گئے ہیں تا کہ دردِ سر اُسکو نہ ستائے
۲۔ سر پر بال اِس لئے اُگائے تاکہ دماغ تک روغن کی مالِش کا اثر جاسکے،اور دماغ کے بُخارات خارج ہو سکیں، نیز سردی و گرمی کا بہ لحاظِ وقت لباس بن جائیں
۳۔ پیشانی کو بالوں سے خالی رکھا تا کہ آنکھوں تک نور بے رکاوٹ آسکے۔
۴۔ پیشانی پر خطوط اِس لئے بنائے ہیں تا کہ پسینہ آنکھوں میں نہ جائے۔
۵۔ آنکھوں کے اوپر اَبرو اِسلئے بنائے تا کہ آنکھوں تک بقدر ضرورت نور پہنچے۔ دیکھوجب روشنی زیادہ ہو جاتی ہے تو آدمی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیزوں کو دیکھتا ہے۔
۶۔ ناک دونوں آنکھوں کے درمیان اس لئے بنائی ہے تاکہ روشنی کو برابر دو حصوں میں تقسیم کردے تاکہ معتدل روشنی آنکھوں تک پہونچے
۷۔ آنکھوں کو بادام کی شکل اس وجہ سے دی تاکہ آنکھوں میں جو دوا سلائی سے لگائی جائے اُس میں آسانی ہو اور میل آنسووٴں کے ذریعہ بہ آسانی خارج ہو سکے۔
۸۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف اِسلئے بنائے تاکہ مغز کا میل وغیرہ اس سے خارج ہو اور خوشبو بذریعہ ہوا دماغ تک جائے اور لقمہ منھ میں رکھتے وقت فورًامعلوم ہو جائے کہ غذا کثیف ہے یا لطیف۔
۹۔ ہونٹ، مُنھ کے سامنے اِسلئے بنائے کہ دماغ کی کثافتیں جو ناک کے ذریعہ آئیں منھ مین نہ جاسکیں۔ اور خوراک کو آلودہ نہ کردیں۔
۱۰- داڑھی اسلئے بنائی تاکہ مرد اور عورت میں تمیز کی جاسکے ورنہ بڑا شرمناک طریقہ اختیار کرنا پڑتا۔
۱۱۔ آگے کے دانت باریک اور تیز اِس لئے بنائے گئے تاکہ غذا کو کاٹ کرٹکڑے ٹکڑے کر سکیں اور داڑھوں کو چوڑے(چَپٹے) اِس لئے بنائے تاکہ وہ غذا کو پیس سکیں۔
۱۲۔ ہاتھوں کی ہتھیلیاں بالوں سے اِس لئے خالی رکھیں تاکہ قوتِ لامسہ(چھونے کی قوت) صحیح کام انجام دے سکے۔
۱۳۔ ناخُن اور بالوں میں جان اِس لئے نہیں ، کہ انکے کاٹنے میں تکلیف کا سامنا باربار نہ ہو۔
۱٤۔ دِل صنوبری شکل اِسلئے دی گئی تاکہ اسکی باریک نوک پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انکی ہوا سے ٹھنڈی رہے۔
۱۵۔ پھیپھڑوں کو دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کیا گیا ہے کہ دِل دونوں طرف سے ہوا حاصل کر سکے۔
۱۶۔ جِگر کو گول اِسلئے بنایا ہے تاکہ معدہ کی سنگینی اپنا بوجھ اس پر ڈال کر زہریلے بُخارات کو خارج کر دے۔
۱۷۔ گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف اسلئے ہے تاکہ آدمی بہ آسانی را ہ چل سکے، ورنہ راستہ چلنا مشکل ہو جاتا۔
طبیبِ جو اب تک دم بخود ہو چکا تھا، نے بڑے اِحترام سے امام سے درخواست کی کہ اِنسان کے جسم کی بناوٹ کی کچھ وضاحت فرمائیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ:
خدا نے اِنسان کو بہ لحاظ ہیکل اِستخوانی دو سو آٹھ حصوں سے ترکیب دیا ہے۔ اِنسان کے جسم میں بارہ اعضاء ہیں ۔ سر، گردن، دو بازو، دو کلائی، دو ران، دو ساق (پنڈلیاں) اور دو پہلو اور تین سو ساٹھ رگیں ، ہڈیاں، پٹھے، اور گوشت۔۔ رَگیں جسم کی آبیاری کرتی ہیں۔ ھڈیاں بدن کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور گوشت ہڈیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ اور اس کے بعد پَٹھے گوشت کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہر ہاتھ میں اِکتالیس ہڈیاں ہیں۔ پینتیس ہڈیوں کا ہتھیلی اور انگلیوں سے تعلق ہے۔ اور دو کا تعلق کلائی سے اور ایک کا تعلق بازو سے اور تین کا کندھے سے تعلق ہے۔ ہر پیر میں تینتالیس ہڈیاں پیدا کی ہیں۔ جن میں پینتیس پاؤں میں اور دُو پنڈلی میں اور تین زانو میں اور ایک ران میں اور دو نشیمن گاہ میں یعنی بیٹھنے کی جگہ میں۔۔ ریڑھ کی ہڈی میں اَٹھارہ ٹکڑے ہیں۔ گردن میں آٹھ، سر میں چھتیس ٹکڑے ہیں۔ اور منھ میں اٹھائیس یا بتیس دانت ہیں۔
اِس زمانہ میں جو ترکیب اِنسان کی ہڈیوں کو شمار کیا گیا ہے اُس میں اور فرمانِ امام میں اگر تھوڑا فرق ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ بعض ان دو ہڈیوں کو جو بہت ہی متصل ہیں ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ امام علیہ السلام نے صدیوں قبل بغیر کسی آلہ اور فن معلومات کے تحقیق طِبی فرمائی ہے وہ آپ کے علم ِ امامت کا بَیّن ثبوت ہے۔ دورانِ خون یہ مسئلہ جو اطباء ِ مشرق نے بعد میں معلوم کیا ہے رازی کا بیان ہے کہ اسکو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے صدیوں پہلے کتاب توحیدِ مفضل میں بیان فرما دیا ہے۔
امام علیہ السلام نے اپنے شاگرد( مفضل) کو مخاطب کر کے فرمایا، اے مفضل! ذرا غذا کے بدن میں پہونچنے پر غور کرو، اور دیکھو کہ اس حکیم مطلق نے اس عجیب کارخانہ کو کس حکمت اور تدبیر سے چَلایا ہے۔ غذا منھ کے ذریعہ پہلے معدہ میں جاتی ہے۔ پھر حرارتِ غریری اس کو پکاتی ہے اور پھر باریک رگوں کے ذریعہ جگر میں پہونچتی ہے۔ یہ رگیں غذا کو صاف کرتی ہیں تا کہ کوئی سخت چیز جگر کو تکلیف نہ پہونچا دے۔ کیونکہ جگر ہر عضو سے زیادہ نازک ہے۔ ذرا اللہ کی اس حکمت پر غور کرو کہ اُسنے ہر عضو کو کس قدر صحیح مقام پر رکھاہے۔اور فُضلہ کے لئے کیسے ظروف(پِتہ، تِلّی اور مثانہ) خلق فرمائے تاکہ فُضلات جسم میں نہ پھیلیں، اور تمام جسم کو فاسد نہ بنا دیں۔ اگر پِتہ نہ ہوتا تو زَرد پانی خون میں داخل ہو کر مختلف بیماریاں مثلًا یرقان وغیرہ پیدا کر دیتا۔ اگر مثانہ نہ ہوتا تو پیشاب خارج نہ ہوتا اور پیشاب خون میں داخل ہو کر سارے جسم میں زہر پھیلا دیتا....
بشکریہ برادر فدا حسین گھلوی صاحب

Read More »
0 comments

9th of Rabi-ul-Awwal : Eid Shuja (Eid e Zahra)




Eid-e-shuja


                          Eid Shuja (Eid e Zahra A.S)


9th of Rabi-ul-Awwal is the day of glory, honour, dignity and blessings . It is a great eid day named "Eid-e-Shuja" and "Eid-e-Zahra (A.S). many hadith have been reported in its merit (fazeelat). This is the day when Ahle Bayt-e-Rasool (peace of Allah be upon them) brought their soag( mourning ) to an end as Hazrat Mukhtar Saqafi (blessings of Allah be upon him) took the revenge from Qatlaan-e-Imam Hussain (A.S) by killing them all in the same manner as they did, and then he sent the heads of Qatlaan-e- Imam Hussain (A.S) {(the murderers of Imam Hussain) including ibne ziyad and umer bin sa'ad umer bin sa'ad was the 1st to shoot the arrow towards khayaam-e-Hussaini (Hussaini camps) and then proudly said: "Be witness that me the 1st to shoot the arrow."} to Beemaar-e-Karbala Hazrat Imam Zain-ul- Abedeen (A.S) who then paid sajda-e- shukr (thanking prostration) to Allah and said "thanks for Allah , for He took revenge from our enemies" and prayed for Hazrat mukhtar (blessings of Allah be upon him) in these words: "Allah will reward mukhtar good" (Bahar-ul-Anwaar vol: 45, Jame- ur- Ruwaat vol:02)
As Hazrat Imam Hasan Askari (A.S) was martyred on 8th of Rabi-ul- Awwal, so 9th of Rabi-ul-Awwal is the 1st day of Hazrat Imam mehdi, Saheb-al-Asr-e-Wazzaman's (Ajja lallahu farajahu) Imamate. And due to this, this day achieves more heights ofhonour, glory and excellence. He, Imam-e-Zamana Ajja lallahu farajahu was born in the night of sha'baan 15 (the night between 14th and 15th of sha'baan ) in the city of samra in Iraq in the year 225 A.H. He is the Imam of our era and Hadith of Holy Prophet (peace of Allah be upon him and his progeny) goes:
"One who dies without knowing the Imam of his time, dies a death of ignorance (jahalat). Hazrat Imam Mehdi, al-Qa'em, saheb-al-asre wazzaman (Ajja lallahu ta'ala farajahu ) is our Imam, Imam of our era and as the verse 71 of sura Bani Israel says:
"(Remember) The day (of judgement) when we shall call every people with their Imam". We will be called and presented with our Imam on resurrection day.
Friends of Muhammad and Aale Muhammad (peace of Allah be upon them) should celebrate this day with great happiness.
Some Aamaal of this day, as reported by ulema are as under:
  1. To wear new and fine dress;
  2. Perfume oneself ;
  3. Give feast to momeneen;
  4. Cause them (momeneen) happy;
  5. Greet each other;
  6. Recite Ziarat-e-Imam-e-Zamana (Ajja Lallahu Ta'ala farajahu)
This glorious day is being announced by Mukhtar force Pakistan, a subsidiary wing of Tehreek Nafaz-e-Fiqh-e-Jafariya Pakistan and which protects Sha'air Allah regardless of any differences, to be observed as "Youm-e-mukhtar" mukhtar day through out the country.
Eid-E-Zehra


                                                          Copy by:-http://www.yaghaziabbas.com/

Read More »
0 comments


BIOGRAPHY OF MOLA HASSAN ASKARI A.S

Name: Al Hasan bin Ali (a.s.)
MotherUmmul Walad - Susan. 
Kunniyat (Patronymic): Abu Muhammad. 
Laqab (Title): Al Askari. 
Birth: He was born at Samarrah in the year 232 A.H. 
Martyrdom: He was poisoned in 260 A.H. at Samarrah and is buried there.
Imam Hassan askari(as)

BIOGRAPHY

His name is al-Hasan, Abu Muhammad. Being a resident of "Asgar a suburb of Samarra", he is titled al-askari. His father was Imam "Ali An-Naqi (A.S.) and his mother was Salil Khatun, an ideal woman in piety, worship, chastity and generosity. He was born in Medina on the tenth of Rabi" al-Akhir, 232 A.H. (December 4, 846 AD).

Upbringing and Instruction

He lived under the care of his respected father upto the age of 11. When his father had to leave for Samarra" he was to accompany him and thus share the hardships of the journey with the family. At Samarra", he passed his time with his father either in imprisonment or in partial freedom. He had, however, the chance to benefit from his father"s teaching and instruction.

Imamate

His father died in 254. A.H. (868 AD) when he was twenty-two. Four months before his death, the father declared his son to be his successor and executor of his will, asking his followers to bear witness to the fact. Thus the responsibilities of Imamate were vested upon him which he fulfilled even in the face of great difficulties and hostile environment.
In the early days of his lmamate, Al-Mu"tassam Al-"Abbasi was the caliph. When the latter was deposed, he was succeeded by al-Muhtadi. After his brief reign of only eleven months and one week, al-Mu"tamad came to the throne. During their regimes, Imam Hasan al-askari (A.S.) did not enjoy peace at all. Although the Abbaside dynasty was involved in constant complications and disorders, each and every king thought it necessary to keep the Imam (A.S.) imprisoned.
One of the Holy Prophet"s traditions ran that the Prophet (S.A.W) would be succeeded by twelve soccessors, the last of whom would be the Mahdi, Qa"im "Al-Muhammad (A.S.). The "Abbasides knew well that the true successors of the Prophet (S.A.W) were these very Imams. AI-Hasan (A.S.) being the eleventh, his son would surely be the 12th or the last. They, tried to put an end to his life in such a way, that it would ensure there would be nobody to succeed him. As the simple confinement inflicted on Imam "Ali an-Naqi (A.S.) was considered inadequate for Imam Hasan al-"askari (A.S.), so he was imprisoned, away from his family. No doubt the revolutionary intervals between two regimes gave him brief periods of freedom. Yet as soon as the new king came to the throne, he followed his predecessor"s policy and imprisoned the Imam again. The Imam"s brief life therefore was mostly spent inside dungeon cells.
Imam Hassan askari(as)

Appointement of Deputies

Under all circumstances, the Imams carried out their duties of guiding the people. Imam Hasan Al-"askari was subjected to numerous restrictions,and those who sought to learn the teachings of AhI al-Bayt (A.S.) and their Shi"ah point of view could not reach him. In order to solve this problem, the Imam appointed certain confidants as his deputies in view of their knowledge of jurisprudence. These persons satisfied the curiosity of inquirers as much as they could. But if they could not solve certain theological problems, they would keep them pending the acquisition of their solutions from the Imam (A.S.) whenever they got the opportunity to see him. Of course the visit to the Imam (A.S.) by a few individuals could be allowed by the government but certainly not by groups who wished to see the Imam (A.S.) on a regular basis.
The Khums (1/5 of total savings), which was being paid to the Imams (A.S.) by the believers who cherished these Imams and regarded them as representatives of the Divine Law was spent by these sacred saints on religious matters, and to sustain the Prophet"s descendants. This Khums was secretly collected by these deputies, who spent it according to the directives of the Imam. They accordingly were in constant danger of being identified as such by the governments’ secret intelligence service. In order to divert this danger, Uthman ibn Sa"id and his son Abu Ja"far Muhammad, two prominent deputies of the Imam (A.S.) in the capital Baghdad, ran a big shop trading in oils. This provided them with free contact with the concerned people. It was thus that even under the very thumb of the tyrant regime that those devotees managed to run the system of the Divine law unsuspected.
Imam Hassan askari(as)

Character and Virtues

Imam Hasan Al-"askari (A.S.) was one of that illustrious series of the immaculate infallible each member of whom displayed the moral excellence of human perfection. He was peerless in knowledge, forbearance, forgiveness, generosity, sacrifice and piety. Whenever Al-Mu"tamad asked anybody about his captive Imam Hasan al-"askari (A.S.), he was told that the Imam fasted during the day and worshipped during the night, and that his tongue uttered no word but remembrance of his creator. During the brief periods of freedom and stay at home, people approached him hoping to avail from his benevolence, and they went back well rewarded. Once when the "Abbaside caliph asked Ahmed ibn "Abd Allah ibn khaqan, his Minister for Charities (awqaf), about the descendants of Imam "Ali (A.S.), he reported: "I do not know anybody among them who is more distinguished than Hasan al-"askari. None can surpass him in dignity, knowledge, piety and abstinence, nor can anybody match him in the point of nobleness majestic grandeur, modesty and honesty".

As Center of Learning

Imam Hasan al-"askari (A.S.) had a brief span of life, only twenty-eight years, but even in this short period, which was furled by a chain of troubles and tribulations, several high ranking scholars benefited from his ocean of knowledge. He also stemmed the flood of atheism and disbelief, which ensued, from the philosophers of that age, winning conspicuous success over them. One of those was Ishaq al-Kindi. He was writing a book on what he called "self-contradictions" in the Holy Qur"an. When the news reached the Imam (A.S.), he waited for an opportunity to refute and rebut him. By chance, some of Ishaq"s students came to him. The Imam asked them: "Is there anyone among you who can stop Ishaq from wasting his time in this useless effort fighting the Holy Qur"an?" The students said: "Sir, we are his students: how can we object to his teaching?" The Imam urged that they could at least convey to their teacher what he had to tell them. They replied that they would be ready to cooperate as much as they could in that respect.
Imam Hassan askari(as)
The Imam (A.S.) then recited a few verses from the Holy Qur"an, which the philosopher thought as contradictory of one another. He then explained to them thus: "Your teacher thinks that some of the words in these verses have only one meaning. But according to the Arabic language, these words have other meanings too which, when taken into consideration, indicate no contradiction in he overall meaning. Thus, your teacher is not justified for basing his objections and claim of contradictions on the premises of the "wrong meaning" he himself selects for such verses". He then put up some examples of such words before them so clearly that the students conceived the whole discussion and the precedents of more than one meaning.
When these students visited Ishaq al-Kindi and after routine talk, reproduced the disputed points, he was surprised. He was a fair-minded scholar and he listened to his students" explanations. Then he said: "What you have argued is beyond your capacity: tell me truly who has taught you these points?" The students said that it was their own reflection, but when he insisted that they could never have conceived those points, they admitted that, it was explained to them by Abu Muhammad Imam Hasan al-askari (A.S.). The instructor said: "Yes: this level of knowledge is the heritage of that House and only that House". Then he asked the students to set fire to all such works of his.
Imam Hasan al-askari (A.S.) was a reliable authority for traditionalists who had recorded several traditions in their collections on his authority. One tradition about drinking runs thus: "The wine drinking is like an idolater". It has been recorded by Ibn al-Jawzi in his book "Tahrim al-Khamr" (prohibition of wine drinking) with continuous chain of references tracing its narrators. Abu Na"im Fadl ibn Waki states that the tradition is true as it has been narrated by his companions such as Ibn "Abbas, Abu Hyrayra, Anas, AbdAllah ibn Awf al-Aslami and others.
Unfortunately, these storehouses of knowledge are not available.
Imam Hassan askari(as)

Imam Al-Hasan al-"askari, peace be on him, said:

Generosity has a limit, when crossed becomes extravagance; caution has a limit when crossed becomes cowardice; thriftiness has a limit, when crossed becomes miserliness; courage has a limit, when crossed becomes fool-hardiness. Let this moral lesson suffice: refrain from doing anything which you would disapprove of if done by someone else.
A Part of Imam Hasan Al-askari’s Commandments to His Shia
Let piety be your provision, patience be your garment, and buy hardship in the path of Allah. Be true in your speech, trustworthy in performing your deeds, prolong your sajdah (prostration), deal with others with best behavior, and treat your neighbor amicably. Perform your prayers even with those whom you think to be your opposition; attend their funeral ceremonies, visit their sick, and give them their rights. Verily I tell you that whosoever is honest and has good behavior in the eyes of others, he is the pious Shia whom I will be proud of. Therefore, fear Allah, be as adornment on behalf of us and be not as shame that defames our name. This is the only way by which others shall be attracted toward us (the Ahlul Bayt of the Holy Prophet s.w.)

Read More »
0 comments

Farman of Mola Imam Hussain A.S


Mere Jang faqt Yazeed Se nh balke har us shkz se hai hai.Jis Ka Yazeedi Kerdar ho.





Mola Hussain A.S ke Farman ke Mutabiq Mola A.S ke Jang Srif Yazeed  se nh balke yar us Insan se Jis ka Yazedi Kirdar ho.Mola A.S ke jang us se he ho ge.Jis ne Apna Kidar Or Ammal Yazeedi tor pe keyae Mola A.S KE Jang us he se hai.Is Leye Hamme Chiye hai ke Apna Kidar Or Ammal ko acha kren take Hamre Mola Hussain A.S Hum Se Razii Hn.

   Dua:-

         YA ALLAH HAME NAEK SERAT PAR CHLNE KE TOFIEQ DE.....!!!!

                  (AMMEN YA ALLAH)




FARMAN OF MOLA HUSSAON A.S








Read More »
0 comments


Poetry for Imam Mola Hussain A.S 



Jab Say Utha hai Zalim ka pahra Furaat pay.!
Kahte hai Moog Moog kahani Hussain(a.s) ke.!
Hairan Hokey pochta phirta hai Seel-e-Aab.!
Kya Chahtee thee Tashna Rahani Hussain(a.s) Ke..!!

==========================================

Bad-e-Rasool [PBUH] Kon Hai Mola do jahan ka..!!
Es ka suraag Kaba ke dewar sey Mila..!!
Zainab [s.a]Kabhe Hussain [a.s] aur kabhe Ali [a.s]..!!

Her Zaveya Rasool [PBUH] Kay Kerdar sey Mila..!
Dare ZAHRA (S.A) sa koi dar to dhund ke laa,
Duniya mein nahi milega tu jannat se dhund ke laa,
Humhe fakkr hai ke hum hain iss dar ke ghulam,,

Tu jaa hum jaisa kisi or ka muqaddar dhund ke laa...

                           courtesy by shiachat.com


Ya Hussain A.S


















Read More »

KIA YA ALI MADAD KEHNA SHIRK HAY????

0 comments

Quran me khuda fermata hay k
"a emman walo sabr or namaz se madad mango"
Rasool e khuda ne fermay hay k momin ki namaz Ali hay .hadees e rasool k mutabiq is ayat ka matlab ye huwa k sabr or Ali se madad mango. tub he to jub b Rasool e khuda ko zaroorat pari rasool ne her bar deen ki nusrat k lye ALI OR AOLAD E ALI se madad talab ki .Na sirf itna bal k Rasool e khuda ne khaiber k moqay per NAD E ALI perh ker bataya k ALI se madad mangna shirk nhn rasool ki sunnat hay.
TO PHIR SHIRK KIA HAY?=================
Shirk ka matlab hay
khuda k saath kisi ko shareek kerna ,
khuda k hukm ki nafermani kerna
khuda ki atta ki hue naimaton ki nashukri kerna.
1/
khuda k sath kisi ko shareek kerna
======================
jisko mola Ali ne bht he zyada condemn kia hay
ye he waja hay k mehrab e ibadat me khuda e wahda ho lashareek k agay ser ba sujood ho ker Mola ne bataya k dekho me khuda nhn hon han meray sajdoon se ye zaroor socho k jis ALI ka banda ALI hoga wo Ali khud kesa hoga
2/. khuda k hukm ki na fermani kerna.
========================
A nabi in se keh den k ager tum khuda se mohabat kertay ho to ap ka itaba karen. means k ap k sunnat ki perwi karen .Or khayber me Nad e Ali ka perhna or aj her shia k zaban per nad e ali ka wird shirk nhn itaba e sunnat e rasool hey
3/
khuda ki atta ki hue naimaton ki nashukri kerna
===============================
khuda ki nematon ki nashukri shirk hay q k uski atta per razi rehnay ka matab hay k wo banda khuda ki her raza per ser tasleem khum hay lekin jub koe banda kehta hay k meray pass ye b nhn wo b nhn to ye khuda ki atta per nashukri hay k theek hay ager khuda ki d hue nematon per khush nhn to koe or khuda dhoondo jo tumhen wo sub kuch d jis se tum razi ho or esa koe or khuda to hay nhn jo wo kuch d jo is khuda k paas na ho to ye havs and hav nots ka rona he shirk hay na k Ya Ali Madad kehna .
Q K
Rasool e khuda ka ferman hay k ALi ayat e kubra hay, Ali naimat e kubra hay.wilayat e Ali 1 azeem nemat hay q k Ali sirat al mustaqeem jis k bar me Rasool e khuda ne fermaya hay k jahan HAQ hay wahan Ali hay or jahan ALi hay wahan Haq hay or haq k rastay per chelnay wala kabhi gumrah nhn hota.
so guys instead of being confused k either YA ALI MADAD is shork or not lets b thankfull to ALLAH ALMIGHTY and the true believers and devoted followers of Sunnah ALL WAYS SAY
"YA ALI MADAD"
LAGAO NARA HAYDARI KAHO KAHO ALI ALI
YE HE HAY SHAN E BANDAGI KAHO KAHO ALI ALI











Read More »

ad